اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سراؤں کے بارے میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران حکومت سے کہا کہ وہ خواجہ سراؤں کو معذروں کے کوٹے میں رکھ کر اُن کو نہ صرف معاشرے کا فعال رکن بنائے بلکہ اُن کے لیے نوکریوں کا بھی بندوبست کرے۔ ان کے لیے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بنائیں تاکہ اُن کو تربیت دے کر انھیں روزگار فراہم کیا جا سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو تربیت دے کر اُنھیں نرسنگ یا دائی کے شعبوں میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ ہماری آج کی منتخب خبر کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرے حصے پر ہم آئندہ کالم میں نظر ڈالیں گے، پہلے اسی حصے کا منظر نامہ دیکھتے ہیں۔
جناب چیف جسٹس کے دل میں موجزن انسانی ہمدردی اور فلاح کا جذبہ اپنی جگہ، لیکن ان کے پاس وقت کی کمی ہے چنانچہ خواجہ سراؤں کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کے لیے ان کی تجاویز مختصر تھیں، ہم نے یہ سوچا ہے کہ کیوں نہ ہم ان تجاویز کو مصرع طرح سمجھ کر اسی قسم کا ایک آدھ مزید پہلو بھی عرض کر دیں، گر قبول افتد زہے عزوشرف
یہاں ہم ایک بات کی وضاحت کر دیں کہ ہم نے ان خواجہ سراؤں کے کلچر کو قریب سے نہیں دیکھا، نہ ہی اپنی ناقص معلومات کے مطابق ہمیں ”خواجہ سرائی“ کا کوئی ذاتی تجربہ ہے، بایں ہمہ ہم اپنی نیم دھندلی چشم تصور سے ان لوگوں کو معاشرے میں فعال دیکھتے ہیں تو عجیب سے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ اگر ان کو معاشرے میں فعال کیا گیا تو یہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس اور نرسوں دائیوں کے پروفیشن تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ انسانی حقوق کے نعرے مارتے ہوئے سیاست میں بھی آئیں گے، سوچیے، تب یہ اپنی انتخابی مہم کس طرح چلائیں گے؟ جب کوئی ”نہ بکنے والا، نہ جھکنے والی“ امیدوار ڈور ٹو ڈور ملاقاتوں کے لیے کسی ووٹر کے گھر جائے گی/ گا، تو اس ووٹر کی گھرگرہستی کا کیا حال ہو گا؟ اور اگر ووٹر نوجوان اور کنوارہ ہوا تو خود امیدوار کا کیا حال ہو گا؟ اسی طرح اگر کوئی خواجہ سرا پارلیمنٹ میں پہنچ گیا تو اسے میڈم اسپیکر کیسے مخاطب کریں گی؟ کیا اسے........
ویسے پارلیمنٹ میں خواجہ سرا کے پہنچنے کی بات ایسی کچھ ایسی عجیب و غریب بھی نہیں ہے، یورپی ممالک کی بات تو چھوڑیے، ہمارے پڑوسی ملک میں ہی بعض ارکان پارلیمنٹ ایسے ہیں جن کی چال ڈھال سے ان کے خواجہ سرا ہونے کا گمان گزرتا ہے، اس پارلیمنٹ میں دو مردوں کی شادی کا قانون منظور ہوا ہے جس سے اس شبہ کو مزید تقویت ملتی ہے۔ شکر ہے کہ ہماری اسمبلی میں کوئی خواجہ سرا نہیں ہے، کم از کم چال ڈھال سے تو ایسا ہی لگتا ہے، البتہ کردار اور پالیسیوں کی بات علیحدہ ہے جس کا تفصیلی ذکر کرنے کاحوصلہ ہم میں نہیں ہے۔ ہم بزدل ہیں لیکن یہ کسی کو بتانا نہیں چاہتے۔ آپ بھی قارئین کرام! یہ بات کسی کو مت بتائیے گا۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کہیں یہ بزدلی ہی خواجہ سرا ہونے کی علامت تو نہیں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو آپ کو مژدہ ہو، یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس ملک میں اکثریت میں ہیں، بلکہ ہم اس خصوصیت میں رجسٹرڈ خواجہ سراؤں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں کہ ان کے اندر خود کو خواجہ سرا کہلوانے کا حوصلہ باقی ہے، ہم میں تو وہ بھی نہیں ہے، مہنگائی اور سرکاری ظلم سہتے جاتے ہیں اور سہمے دبکے جاتے ہیں، اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر چوکیدار نے بھی پولیو کے قطرے پی رکھے ہوں تو اس کی لاٹھی بیکار ہو جاتی ہے۔
ہم نہیں سوچتے، ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے، ہم بنی اسرائیل ہیں اور اپنے موسیٰ کا انتظار کر رہے ہیں۔